14-Apr-2022 لیکھنی کی کہانی -منزل عشق قسط 30
منزل عشق قسط 30
ابھی اس آدمی کا ہاتھ ہانیہ کے دوپٹے تک گیا ہی تھا جب اچانک دروازہ بہت زور سے کھلا،بہت تیزی سے فوجی اندر داخل ہوئے اور وہاں موجود ہر دہشت گرد کو اپنے نشانے پر لے لیا۔
کال نے حیرت سے اردگرد دیکھتے ہوئے عماد کو دیکھا جو شان سے بستر پر بیٹھا مسکرا رہا تھا۔
"وانیا میرے پاس آؤ۔۔۔"
وانیا نے گھبرا کر اردگرد موجود دہشت گردوں کو دیکھا جن سے اب فوجی بندوقیں لے چکے تھے۔
"ڈرو مت وانیا یہاں آؤ۔۔۔"
عماد کے پکارنے پر وانیا جلدی سے اسکے پاس چلی گئی اور اپنا چہرہ اسکے سینے میں چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
"تو کیا کہہ رہا تھا تو؟ کہ ان سب سے کیا کروائے گا؟"
عماد نے وانیا کی کمر سہلا کر اسے دلاسہ دیتے ہوئے کال سے پوچھا جو گھبرا کر یہاں وہاں دیکھتے ہوئے راہ فرار تلاش کر رہا تھا۔
"لگتا ہے اپنا ہاتھ کٹوا کر بھی تجھے سکون نہیں آیا اور یہ دوسرہ ہاتھ کس سے تڑوا لیا ماڑا اب کس کی غیرت پر ہاتھ ڈالا تھا۔۔؟"
عماد نے کال کے ہاتھ کو دیکھ کر طنز کیا جو انس نے ہانیہ کو چھونے کی وجہ سے توڑا تھا۔
"اب بس ٹانگیں رہ گئیں ہیں جو تجھے یہاں چلا کر لائیں بتا دیں مجھے وہ بھی پیاری ہیں تجھے یا نہیں۔۔۔۔؟"
عماد کی بات پر کال کا سانس اس کے سینے میں ہی اٹک چکا تھا۔
"تجھے کیا لگا کہ میں بھول جاؤں گا کہ راگا اور ویرہ کے ساتھ ایک شیطان اور بھی تھا۔۔۔۔او ماڑا یہ فوجی۔۔۔۔۔ نہیں تیرا نقلی راگا ناں تیرے اصلی والے راگا سے زیادہ سر پھرا ہے کوئی بھی کام بنا مقصد کے نہیں کرتا۔۔۔"
عماد نے شان سے مسکرا کر کہا۔
"اب دیکھ نا یہاں آ کر میں نے اپنا آپ چارہ بنایا اور تو اندھی بکری کی طرح میں میں کرتا شیر کو ہی گھاس سمجھ بیٹھا۔۔۔"
عماد نے مسکرا کر کہا اور وہاں کھڑے فوجیوں کو دیکھا۔
"لے جاؤ انہیں یہاں سے سولجرز ہمارا آخری شکار بھی ہاتھ آ گیا مشن از اکمپلیشڈ۔۔۔"
عماد کی بات پر سب فوجیوں نے ان دہشتگردوں کو گرفتار کر لیا لیکن کال نے جلدی سے ایک فوجی کو دھکا دے کر اسکی پسٹل پکڑی اور اپنے ٹوٹے ہاتھ کو بازو کا سہارا دے کر عماد پر گولی چلانا چاہی لیکن اس سے پہلے ہی عماد اپنی پسٹل تھام کر اسکی ٹانگ میں گولی مار چکا تھا۔
"لے جاؤ اسے ورنہ پورا معزور ہو کر ہی چین آئے گا اسے۔۔۔"
عماد نے زمین پر گرے کال کی کو دیکھ کر ہنستے ہوئے کہا تو سب فوجی ان دہشتگردوں کو وہاں سے لے گئے۔عماد نے مسکرا کر وانیا کو دیکھا جو اسکے سینے میں چہرہ چھپائے ابھی بھی خوف سے کانپ رہی تھی۔
"چلا گیا وہ افغان جلیبی ہمیشہ کے لیے اب کبھی نہیں ستا پائے گا تمہیں۔۔۔"
عماد نے اسکے کان پر اپنے ہونٹ رکھ کر کہا۔
"عماد یہ سب آپ کا پلین تھا اسے پکڑنے کے لیے؟"
وانیا نے معصومیت سے پوچھا۔
"جان مجھے سمجھنے کی کوشش مت کرنا آج تک خود کو خود بھی سمجھ نہیں پایا میں۔۔۔ اور رہی تمہاری بات تو یاد رکھنا جان سے زیادہ عزیز ہو تم مجھے تمہارے لیے مر بھی سکتا ہوں وانیا۔۔۔۔تمہیں میں کبھی بھی خطرے میں نہیں ڈال سکتا۔۔۔"
عماد نے اسکا چہرہ اپنے سینے سے نکال کر بہت محبت سے اسکا ماتھا چوما۔
"جب سے ہم یہاں ہیں تب سے آرمی چھپ چھپا کر ہماری پروٹیکشن کے لیے ہمارے ساتھ تھی کیونکہ میں جانتا تھا کہ کال ابھی بھی آزاد ہے اور مجھے ڈھونڈ رہا ہوگا تو سوچا کیوں نا یہاں آ کر اس کے لئے آسانی پیدا کر دوں۔۔۔"
عماد کی بات پر وانیا نے اپنا منہ بسور کر آنسو صاف کیے۔
"آپ سچ میں بہت سر پھرے ہیں۔۔۔"
عماد اس کی بات پر قہقہہ لگا کر ہنس دیا۔
"رات تک تو بے شرم تھا۔۔۔"
عماد نے اسکے کان کی لو کو دانتوں میں دبا کر کہا تو وانیا خود میں ہی سمٹ گئی۔
"عماد۔۔۔"
"جی عماد کی افغان جلیبی۔۔۔"
عماد بے خود سا ہوتا اسکے بالوں میں اپنا چہرہ چھپا چکا تھا۔
"گھر واپس چلیں یہاں ڈر لگ رہا ہے اب مجھے۔۔۔"
عماد نے اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔
"ٹھیک ہے میری جان جیسے تمہاری مرضی کیونکہ میرا کام اب ہو گیا ہے۔"
عماد نے اسکی ناک کو چوم کر کہا اور اٹھ کر فریش ہونے چلا گیا جبکہ وانیا وہاں پر بیٹھی اپنے شوہر کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن کچھ دیر بعد کو اتنا سمجھ چکی تھی کہ اس شخص کو سمجھنا مشکل ہی نہیں ناممکن تھا۔۔۔
❤️❤️❤️❤️
سالار گھر واپس آتے ہی سب سے پہلے جنت کے پاس گیا لیکن جنت ابھی بھی بس خاموشی سے اپنے گھٹنے پر سر رکھیں بیٹھی تھی۔سالار نے اس کے قریب جا کر اس کے سر پر اپنا ہاتھ رکھا۔
"جنت میری جان ابھی بھی ناراض ہو مجھ سے۔۔۔؟"
سالار کے سوال پر جنت نے نگاہیں اٹھا کر اس کو دیکھا پھر آہستہ سے انکار میں سر ہلا دیا۔
"نہیں سالار میں آپ سے ناراض نہیں۔۔۔میں چاہتی ہوں کہ آپ میری ایک خواہش پوری کر دیں۔۔۔وعدہ کرتی ہوں پھر آپ جو چاہیں گے ویسا ہی کروں گی ۔۔۔۔"
جنت کی بات پر سالار مسکراتے ہوئے اس کے پاس بیٹھا۔
"تم جانتی ہو بیبی گرل کہ تمہیں بس نام لینا ہے اور میں یہ دنیا بھی تمہارے قدموں میں ڈال دوں۔۔۔۔"
سالار نے محبت سے اس کے ماتھے سے بال ہٹاتے ہوئے کہا۔جنت نے اس کا ہاتھ تھام کر اپنے سر پر رکھا۔
"تو پھر میرے سر کی قسم کھا کر وعدہ کریں کیا اب کسی کی بھی جان نہیں لیں گے اور یہ سکندر بننا چھوڑ دیں گے۔۔۔۔اب بس میرے سالار بن کر رہیں گے۔۔۔۔"
جنت کی بات پر سالار کے چہرے کی مسکان غائب ہوچکی تھی اور اس نے خاموشی سے اپنا ہاتھ جنت کے سر سے ہٹا دیا۔
"میں ایسا نہیں کر سکتا جنت کچھ گنہگار ابھی باقی ہیں جنہیں انجام تک پہنچانا بہت ضروری ہے پر انہیں ان کے کئے کی سزا دیے بغیر میں یہ وعدہ نہیں کر سکتا۔۔۔۔"
سلار کی آواز پر جنت کو بہت زیادہ غصہ آیا اور وہ روتے ہوئے اٹھ کر اس سے دور ہو گئی۔
"آپ سزا دینے والے کون ہوتے ہیں؟سزا دینا آپ کا نہیں حکومت کا کام ہے آپ کیسے قانون کی خلاف ورزی کر کے خود کو ایک ہیرو سمجھ سکتے ہیں۔۔۔؟"
جنت روتے ہوئے چلائی اور سالار بس خاموشی سے سر جھکائے کھڑا تھا۔
"کون سا قانون جنت؟وہ قانون جو بچوں کے سامنے انکی ماں سے زیادتی کرنے والے کو نہیں پکڑ سکا یا وہ قانون جو گناہ گار کو پکڑتا ہے تو چند سکوں میں بک کر اسے مزید گناہ کرنے کی اجازت دیتا ہے۔۔۔۔یا وہ قانون جنت جو کبھی انصاف کرتا ہے تو میڈیا کے پریشر پر ورنہ انصاف پر چلنے والوں کو ہی مروا دیا جاتا ہے۔۔۔۔"
سالار ابھی بات کہہ کر بیڈ سے اٹھ کھڑا ہوا۔
"یہ بہت ضروری ہے جنت کہ جو گناہ گار قانون سے نہیں ڈرتا اسے کسی سکندر کا ڈر ہو، کیونکہ یہ خوف ہی ہے جو اسے مزید گناہ کرنے سے روکے گا۔۔۔۔اور میں یہ خوف فخر سے بننا چاہوں گا۔۔۔"
اتنا کہہ کر سالار نے الماری سے اپنے وہ کالے کپڑے نکالے اور وہاں سے باہر جانے لگا لیکن جاتے جاتے جنت کو مڑ کر دیکھا۔
"تم آزاد ہو چاہو تو اپنے بابا کے گھر واپس جا سکتی ہو۔۔۔۔میرے واپس آنے پر اگر تم مجھے یہاں ملی تو میں سمجھ جاؤں گا کہ تم نے مجھ پر بھروسہ کیا اور اگر تم یہاں نہ ہوئی ۔۔۔"
اس سے آگے سالار نے کچھ نہیں کہا بس اپنی ادھوری بات سے جنت کو اضطراب آپ میں ڈالتا وہاں سے چلا گیا۔اس کے جانے کے بعد جنت فرش پر بیٹھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔وہ نہیں سمجھ پا رہی تھی کہ صحیح کیا تھا اور غلط کیا۔
❤️❤️❤️❤️
خادم سکندر کے بتائے ہوئے وقت پر اپنے گودام میں آیا تھا لیکن وہاں کسی کو نہ پا کر حیران ہوا۔
"بہت ہوگیا لکا چھپی کا کھیل سکندر آ بھی جاؤ اب سامنے یا اتنی ہمت نہیں تم میں۔۔"
خادم کی آواز سنسان جگہ پر گونجی۔پہلے تو اسکو کوئی جواب نہیں ملا اور اردگرد خاموشی چھائی رہی پھر کسی نے پیچھے سے خادم کو پکڑ کر دبوچا اور ایک کرسی پر بیٹھا کر اسکے ہاتھ پیچھے باندھ دیے۔
اسکے ہاتھ باندھ کر کالے کپڑوں میں ملبوس وہ سکندر خادم کے سامنے آیا۔خادم نے بغیر کسی خوف کے مسکرا کر اسے دیکھا۔
"اب تو آمنے سامنے آگئے ہیں سکندر پھر اب بھی کیسا پردہ؟چہرہ دکھا بھی دو۔۔۔"
خادم نے طنزیہ انداز میں کہا لیکن سکندر بس سامنے موجود میز کی جانب گیا اور اس پر پڑا لیپ ٹاپ چلانے لگا۔
"ویسے پچھلی سکندری تو بہت بہادر تھی اور چالاک بھی بہت بنتی تھی لیکن کیا انجام نکلا اس کا۔۔۔تمہیں اپنے انجام سے ڈر نہیں لگتا کیا؟"
خادم نے ایک اور طنز کیا لیکن سکندر اسے مکمل طور پر نظر انداز کرتا لیپ ٹاپ پر کچھ کر رہا تھا ۔
"ناطہ کیا ہے تمہارا اس سکندری سے کہیں اس کے بھائی تو نہیں تم؟"
خادم نے ابرو اچکا کر پوچھا لیکن تبھی سکندر لیپ ٹاپ کے سامنے سے ہٹا اور خادم کی نظر لیپ ٹاپ پر چلتی وڈیو پر پڑی۔جس میں وہ اور عرفان موجود تھے۔
"مجھے اپنے نام جیسا خادم نہیں بننا تھا مجھے سلطان بننا تھا۔۔۔۔سلطان۔۔"
خادم اس وڈیو میں ہنستے ہوئے کہہ رہا تھا اور عرفان کو اپنے ہر گھناؤنے کام کے بارے میں بتا رہا تھا کہ کیسے اس نے عشال اور سعد کو مار کر اس کا الزام عثمان پر لگایا تھا۔کیسے اس نے خود اپنی بیٹی کے سامنے اپنی بیوی کی جان لی تھی اور کیسے اتنے سال تک اپنی بیٹی کو ڈرا کر اس کا منہ بند رکھا تھا۔
"واہ قابل تعریف ہے تمہاری کوشش۔۔۔تم تو میری سوچ سے بھی زیادہ میرے قریب رہے تھے۔۔۔۔"
خادم نے دانت پیس کر کہا۔
"لیکن شاید تم جانتے نہیں ان ثبوتوں کے ہوتے ہوئے بھی تم میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے بہت آسانی سے تمہاری ان ویڈیوز کو جھوٹا ثابت کر دوں گا عدالت میں۔۔۔"
خادم کی آواز میں ایک غرور تھا جیسے کہ وہ اپنی طاقت اور دولت کے زور کی وجہ سے کبھی بھی پکڑا نہیں جا سکتا۔سکندر نے کچھ کاغذ پکڑے اور اس کے سامنے موجود میز پر پھینک دیے۔
خادم نے حیرت سے ان کاغذات کو دیکھا جس میں اس کی منی لانڈرنگ اور اس کے ہر گناہ کا پختہ ثبوت موجود تھا۔سکندر کی آنکھوں میں جیت کی چمک دیکھ کر خادم گھبرا گیا۔
"کیا ثابت کر لو گے تم اس سب سے ہاں بولو۔۔۔۔مان لیا کہ میں سلطان ہوں جس نے دہشتگردوں کے ذریعے دھماکے کروائے ،سمگلنگ کا سامان منگوایا اس ملک میں اور جس نے بھی میرے خلاف کھڑے ہونے کی جرآت کی اس کی آواز دبا دی۔۔۔"
خادم غصے سے چلاتے ہوئے اپنے آپ کو چھڑوانے کی کوشش کر رہا تھا۔
"اعتراف کرتا ہوں کہ تمہاری اس عوام کو بیوقوف بنا کر ان کا پیسہ کھاتا رہا۔۔۔ایک طرف ان کی جان لیتا تو دوسری طرف ہمدردی دیکھا کر ایک مسیحا بن جاتا۔۔۔۔۔اپنے ہر گناہ کا اعتراف کرتا ہوں اور یہ اعتراف چیخ چیخ کر عدالت میں بھی کر دوں ناں تو بھی تم میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔۔۔"
خادم اتنا کہہ کر قہقے لگا کر ہنسنے لگا۔
"ہاہاہا زیادہ سے زیادہ کیا کرے گی عدالت میرے ساتھ مجھے عمر قید کی سزا دے دے گی اور میری جائیداد ضبط کر لے گی اور میں بہانہ بنا کر ضمانت لوں گا اور اس ملک سے نکل جاؤں گا۔۔۔۔پھر کون پکڑے گا مجھے۔۔۔۔"
سکندر بس خاموشی سے کھڑا اس شخص کو دیکھ رہا تھا جسے یہ لگتا تھا کہ ہر گناہ کر کے بھی کوئی اسکا بال بھی بیکا نہ کر سکے گا۔
"ہاہاہا جیسا اس ملک کا انصاف ہے نا ہم جیسے لوگ آزادی سے اپنی من مرضیاں کرتے پھریں گے اور کوئی بھی ہمیں چھو نہیں پائے گا۔۔۔۔بلکہ یہ بے وقوف عوام ہمیں ہی اپنا مسیحا سمجھتی رہے گی۔۔۔۔یہاں میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔۔۔۔کوئی بھی نہیں۔۔۔۔"
خادم غرور سے ہنستے ہوئے کہہ رہا تھا تبھی سکندر نے وہ لیپ ٹاپ بند کر دیا اور اپنے چہرے پر موجود نقاب ہٹایا۔اس نقاب کے پیچھے موجود معراج کا چہرہ دیکھ کر خادم کی ہنسی گل ہوئی تھی۔
"شش۔۔۔شائید تو یہ نہیں جانتا خخ۔۔۔خادم کہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہے۔۔۔وو۔۔۔وہ تجھ جیسے گناہگار کی رر۔۔۔رسی دراز کرتا ہے ککک۔۔۔کہ تیری حد دیکھ سکے۔۔۔۔اور تجھے لگتا ہے کہ تجھے پپ۔۔۔پکڑنے والا کوئی نہیں۔۔۔ببب۔۔۔بے وقوف یہ لوگ نہیں خادم بے وقوف تو تو ہے۔۔۔"
خادم معراج کو دیکھ کر ہی غصے سے آگ بگولہ ہو چکا تھا ہو کرسی سے بندھا جھٹپٹانے لگا۔
"تو سکندر تھا میرے ساتھ رہ کر مجھے بے وقوف بناتا رہا۔۔۔۔نہیں چھوڑوں گا تجھے۔۔۔"
خادم غصے سے چلایا لیکن معراج کے چہرے پر بس ایک مغرور مسکراہٹ تھی۔
"ففف۔۔۔فی الحال تو اپنی فکر خخخ۔۔۔۔خادم کیونکہ ججج۔۔۔جو ویڈیو میں نے تجھے دکھائیں ووو۔۔۔۔وہ اور تیرے منہ سے بولا گیا سس۔۔۔سچ میں ابھی لائیو پورے ملک کو دیکھا چکا ہوں۔۔۔ااا۔۔۔۔اب تیرا یہ گھٹیا چہرہ ہر ایک ککک۔۔۔کے سامنے آ چکا ہے۔۔۔۔"
معراج شان سے مسکرایا لیکن یہ سن کر خادم غصے سے جھٹپٹانے لگا پھر اپنے بازو میں چھپائے ریموٹ کو کھینچ کر ہاتھ میں لے لیا۔
"جج۔۔۔جتنا گھٹیا تو انسان ہے ناں خادم۔۔۔ااا۔۔۔اس سے زیادہ گھٹیا باپ جج۔۔ جس نے اپنی ہی بیٹی پر ظلم کیا ۔۔۔اااا۔۔۔۔اس طاقت کے لیے آج کککک۔۔۔کہاں گئی تیری وہ طاقت کک۔۔۔کس کام آئی۔۔۔؟"
معراج کے سوال پر خادم بس اپنے دانت کچکچا کر رہ گیا۔معراج نے مسکرا کر ایک کونے میں دیکھا جہاں ایمان کھڑی رو رہی تھی۔
"آآآ۔۔۔۔آج میں اپنی ایمان کک۔۔کو اسکی سالگرہ کا سب سے بڑا تحفہ دوں گا۔۔۔۔ااا۔۔۔اسکی ماں کو انصاف۔۔۔"
خادم نے بھی معراج کی نظروں کا پیچھا کرتے ایمان کو دیکھا جسکی آنکھوں میں اپنے باپ کے لیے کوئی افسوس نہیں تھا بس نفرت تھی بے تحاشہ نفرت۔
"اس کے لیے زندہ بچو گے تو ناں؟"
خادم نے اتنا کہہ کر ریمورٹ کا بٹن دبا دیا لیکن وہاں کچھ بھی نہیں ہوا تو خادم بے چینی سے اس بٹن کو بار بار دبانے لگا۔
"کیا ہوا سلطان تمہارے بم نے کام نہیں کیا؟ چچچچ تمہیں کیا لگا کہ ہم جو تمہارا سب سچ جانتے ہیں تمہاری اس گھٹیا سی کوشش سے بے خبر رہیں گے؟"
سالار کی آواز پر خادم نے حیرت سے اسے دیکھا۔
"تم بھی اس میں شامل تھے؟"
خادم کے جواب پر سالار شان سے مسکرا دیا۔
"میرے بابا پر خون کا الزام لگایا تھا تم نے تمہیں کیا لگا میں خاموش تماشائی بن کر ان کی بربادی کا نظارہ دیکھوں گا؟"
سالار نے طنز کیا اور مسکرا کر معراج کے پاس آیا۔
"تو معراج کیا کہتے ہو اسکے ساتھیوں کی طرح کتے کی موت ماریں اسے یا آرام و سکون سے مرنے دیں۔۔۔"
سالار کے پوچھنے پر معراج کے ہونٹوں پر بس ایک طنزیہ مسکان آئی۔
"اااا۔۔۔۔اتنی آسانی سے نہیں ماریں گگگ۔۔۔گے اسے بھائی اپنے تمام آدمیوں سے زیادہ تڑپے گا۔۔۔"
اتنا کہہ کر معراج آگے بڑھا اور ایک چاقو خادم کی آنکھ کے پاس رکھا۔خادم کا سانس خوف سے اسکے گلے میں کی اٹک چکا تھا۔
"رک جاؤ سکندر۔۔۔"
ایک آواز پر معراج نے حیران ہو کر انس کو دیکھا جو آئی بی کے کالے یونیفارم میں ملبوس باقی کے سپاہیوں کے ساتھ ان پر بندوق تانے کھڑا تھا۔
"یو آر انڈر اریسٹ۔۔۔۔"
انس کے ایسا کہنے پر خادم قہقے لگا کر ہنسنے لگا۔
"آ گیا میری آزادی کا پروانہ اب یہ پولیس والے مجھے عدالت جائیں گے اور میرے ساتھ تو وہی ہوگا جو میں نے کہا لیکن تم جو کہ بس ایک غریب کیڑے ہو تم پر بہت سے اور کیس ڈال کر تمہیں کچل دیا جائے گا۔۔۔۔ہاہاہا یہ قانون صرف امیر کا ہے سکندر۔۔۔"
خادم نے ہنستے ہوئے کہا اور انس کی جانب دیکھا۔
"اریسٹ کر لو اسے آفسر تمہارے سامنے ہے بہت سے لوگوں کو مارنے والا سکندر۔۔۔"
خادم نے دانت پیس کر کہا تو معراج نے غصے سے وہ چاقو اسکی گردن پر رکھا۔
"تتت۔۔۔تجھے مارنے کے بعد مجھے مم۔۔۔موت بھی قبول ہوگی۔۔۔"
اس سے پہلے کہ وہ خادم کا گلا کاٹتا ایک سپاہی آگے بڑھا اور معراج کو اپنی گرفت میں لے لیا سالار نے آگے بڑھنا چاہا لیکن وہ سپاہی اسے بھی پکڑ چکے تھے۔
"معراج۔۔۔"
ایمان روتے ہوئے آگے ہوئی لیکن پولیس والوں نے اسکا راستہ روک دیا۔
"ہاہاہا بولا تھا نا کہ تو مجھے چھو بھی نہیں سکتا۔۔۔اب میں تجھے آزاد ہو کر دیکھاؤں گا آزاد۔۔۔۔"
خادم نے ہنستے ہوئے کہا اور پھر بہت رعب سے انس کی جانب دیکھا جو معراج اور سالار پر بندوق تانے کھڑا تھا۔
"لے جاؤ انہیں انسپکٹر انکی اصلی اوقات دیکھا دو اور ہاتھ کھولو میرے۔۔۔"
خادم کا لہجہ بہت تحکمانہ تھا۔انس نے ایک نظر سالار اور معراج کو دیکھا تو دوسری نظر خادم کو پھر اس نے اپنی بندوق نیچے کر دی۔
"سولجرز ۔۔۔۔"
"یس سر۔۔۔"
انس کے پکارنے پر سب نے ایک ساتھ کہا۔
"کیا آپ میں سے کسی نے سکندر کو دیکھا ہے؟"
انس نے خادم کو دیکھتے ہوئے اپنے ساتھیوں سے سوال کیا۔
"نو سر۔۔۔"
ان سب سپاہیوں کے ایک ساتھ کہنے پر خادم گھبرا گیا۔اتنا تو وہ سپاہی بھی سمجھ چکے تھے کہ انکو ذلیل کرنے والا یہ سیاستدان جو کہہ رہا تھا وہ سچ ہونا تھا گناہگار ہونے کے باوجود اس نے بیرون ملک بھاگ جانا تھا۔
"جب ہم یہاں پہنچے تو کیا ہوا؟"
انس نے مسکراتے ہوئے پوچھا جبکہ معراج اور انس بھی اسے حیرت سے دیکھ رہے تھے۔پہلے تو سب خاموش رہے پھر ایک سپاہی بولا۔
"باقی سب کی طرح ہم بھی ٹی وی پر خادم شفیق اور سکندر کو دیکھ کر انہیں ٹریک کرتے ہوئے یہاں پہنچے۔"
وہ سپاہی خاموش ہو گیا تو دوسرا بولا۔
"لیکن جب ہم انہیں اریسٹ کرنے وہاں پہنچے تو پہلے ہی سکندر خادم کو وہاں سے لے کر جا چکا تھا۔"
اس سپاہی کی بات سن کر خادم نے گھبرا کر انس کو دیکھا جو مسکرا رہا تھا۔
"پھر سکندر خادم شفیق کو سڑک پر لے گیا جہاں اس وڈیو میں خادم شفیق کا سچ دیکھنے کے بعد عوام بہت زیادہ غصے میں تھی اور سکندر نے خادم شفیق کو اسی عوام کے حوالے کر دیا جسے وہ اپنا کھلونا سمجھتا تھا۔۔"
انس کی بات پر سب سپاہی مسکرا دیے۔
انس اب معراج کو دیکھ کر اپنی بات کہہ رہا تھا۔
"ہم نے وہاں پہنچ کر عوام کو روکنے کی کوشش کی لیکن عوام بہت زیادہ تھی اور ہم اپنے ہی لوگوں پر ہتھیار نہیں اٹھا سکتے تھے اس لیے عوام نے خادم شفیق کو مار مار کر ختم کر دیا اور ہم کچھ نہیں کر پائے۔۔۔"
یہ بات کہتے ہوئے جہاں انس کے چہرے پر ایک مسکان تھی وہیں خادم کا رنگ خوف سے اڑ چکا تھا۔
"نہیں چھوڑوں گا میں تمہیں پولیس والے یاد رکھنا تم جانتے نہیں مجھے۔۔۔"
خادم چیخنے لگا لیکن سپاہی معراج اور سالار کو چھوڑ کر سائیڈ پر کھڑے ہو چکے تھے۔
"لے جاؤ اسے سکندر آج ہماری وجہ سے یہ چھوٹ گیا ناں تو دھبہ ہوں گے ہم اپنی اس وردی پر۔۔۔"
انس کی بات کر سالار بھی مسکرا دیا۔معراج نے ایمان کی طرف دیکھا جو بس نم آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
"جاؤ اور ایمان کی پرواہ مت کرو میں لے آؤں گا اسے۔۔"
سالار نے اسکے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھ کر کہا تو معراج نے اپنا ماسک اوپر کیا اور آگے بڑھ کر خادم کے ہاتھ کھولے بغیر اسے کالر سے پکڑا اور اپنے ساتھ گھسیٹنے لگا۔
"نہیں چھوڑو مجھے۔۔۔چھوڑو۔۔۔۔"
خادم چلا رہا تھا معراج کو مارنے کر خود کو چھڑوانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن سب بے کار تھا۔معراج اسے کھینچ کر سڑک پر لے آیا جہاں بہت سے لوگ مٹھیاں بھینچے خادم کو دیکھ رہے تھے۔
"کمینے ہماری وجہ سے جیتتے ہو اور ہمیں ہی اپنا کھلونا سمجھتے ہو آج پتہ چلے گا تمہیں کہ عوام کی طاقت کیا ہوتی ہے۔۔۔"
ایک آدمی نے خادم کو دیکھ کر کہا اور آگے ہو کر ایک مکا اسکے منہ پر مارا۔بس پھر ہر طرف سے لوگ اس پر ٹوٹ پڑے اور اسے مارنے لگے۔
"چھوڑو مجھے۔۔۔بچاؤ۔۔۔۔"
خادم چلاتا رہ گیا لیکن کوئی اسکی نہیں سن رہا تھا۔تبھی وہاں پر مزید پولیس والے اور رینجرز آ گئی لیکن وہ سب مل کر بھی خادم کو چھڑوا نہیں پائے۔عوام نے خادم کو تب ہی چھوڑا تھا جب اسکے دل کی دھڑکنیں بند ہو گئی تھیں۔
بادشاہ بن کر جینے کے خواب دیکھنے والا آج ذلت کی موت مرا تھا اور یہی قدرت کا انصاف تھا۔
"سکندر کو پکڑو بھاگنے نہ پائے وہ۔۔۔"
ایک پولیس آفسر نے معراج کی طرف اشارہ کر کے کہا جو نم سبز آنکھوں سے خادم کی لاش دیکھ رہا تھا۔آج اس نے سہی معنوں میں اپنے ماں باپ کو انصاف دلوایا تھا۔
"اریسٹ ہم۔۔۔"
ایک آفسر نے کہا تو انس نے گھبرا کر معراج کو دیکھا جو ابھی بھی خاموشی سے وہاں پر کھڑا تھا لیکن پولیس والوں نے جیسے ہی آگے بڑھ کر سکندر کو پکڑنا چاہا سب لوگ ایک ڈھال بن کر اسکے سامنے کھڑے ہو گئے۔
"اس شخص نے گناہگاروں کو مار کر انصاف دلوایا ہمیں۔۔۔وہ کیا جو ہمارے قانون کا کام تھا۔۔۔ہم اسے نہیں پکڑنے دیں گے۔۔۔ "
عوام کے اس اتحاد پر پولیس والوں نے حیرت سے سب کو دیکھا۔
"دیکھیں جو بھی ہے اس نے قانون توڑا ہے اور ہم اس گینگسٹر کو سزا دے کر رہیں گے۔ "
"سکندر گینگسٹر نہیں ہے۔۔۔۔۔"
ایک آدمی چلایا تو معراج نے حیرت سے سب کو دیکھا جو اسکی ڈھال بن کر کھڑے تھے۔
"سکندر ہمارا ہیرو ہے۔۔۔ہاں سکندر ہمارا ہیرو ہے۔۔۔"
سب لوگ ایک ساتھ چلانے لگے۔پولیس والوں نے لوگوں کو مار کر ہٹانا چاہا لیکن وہ معراج کی ڈھال بن کر کھڑے رہے۔
نم آنکھوں سے مسکرا کر معراج نے ان سب کو دیکھا اور وہاں سے بھاگ گیا۔اس نے اپنی ماں کی پہچان کو روشن کیا تھا۔
❤️❤️❤️❤️
پولیس نے معراج کا پیچھا کیا اور ان سے بچتا بچاتا معراج ایک گلی سے نکلا تو سامنے ہی ایک گاڑی رکی اور ڈرائیور نے پیسنجر سیٹ کا دروازہ کھولا۔
"بیٹھو جلدی۔۔۔"
وجدان کی آواز پر معراج نے حیرت سے اپنے ماموں کو دیکھا اور فوراً گاڑی میں بیٹھ گیا۔وجدان نے گاڑی سٹارٹ کر دی۔معراج نے جلدی سے اپنی ہڈی اتار کر اپنے بیگ سے ایک عام سی ٹی شرٹ پہنی اور بلیک پینٹ پر ایک کھلا سا ٹراؤزر پہن لیا۔
"مم ۔۔۔ ماموں آپ یہاں؟"
وجدان معراج کے سوال پر مسکرا دیا۔
"تمہیں کیا لگا مجھے پتہ نہیں ہو گا کہ میری سر پھری بہن کا بیٹا اسی پر جائے گا۔۔۔۔۔"
وجدان نے مسکرا کر کہا اور اپنا ایک ہاتھ اس کے کندھے پر رکھ دیا۔
"مجھے فخر ہے بیٹا تم پر۔۔۔"
معراج بھی ہلکا سا مسکرایا۔
"آآآ۔۔۔۔آپ کو اس بارے ممم۔۔۔۔میں پتہ کب چلا؟"
"جس دن ٹی وی پر آ کر تم نے سلطان کے نام پیغام چھوڑا تھا وہ بھی سکندر کی طرف سے۔۔۔۔صرف سعد ،میں اور عشال ہی سکندر کا راز جانتے تھے اور ہمارے علاؤہ ایک تم ہی تھے جو یہ نام چنتے۔۔۔۔"
معراج نے اطمینان سے ہاں میں سر ہلایا۔
"ااا۔۔۔۔اب ہم کہاں جا رہے ہیں؟"
"گھر، جہاں تمہاری ایمان تمہارا انتظار کر رہی ہے۔۔۔"
معراج ایمان کے ذکر پر مسکرا دیا لیکن دل ہی دل میں وہ پریشان بھی تھا کہ ایمان اسے اپنے باپ کا قاتل سمجھ کر اس سے نفرت تو نہیں کرنے لگے گی۔
اچانک معراج کی نظر سامنے پڑی جہاں پولیس نے ناقہ بندی کی ہوئی تھی۔ضرور وہ سکندر کو پکڑنا چاہتے تھے۔وجدان نے گاڑی روکی اور اپنی سائیڈ کا شیشہ نیچے کیا۔
"اینی پروبلم آفسر؟"
وجدان کو دیکھ کر پولیس والے نے فوراً انکار میں سر ہلایا اور وجدان کو سیلیوٹ کر کے جانے کا اشارہ کیا۔وجدان معراج کو سیدھا شایان کے گھر لے کر آیا۔
"واپس آ گئے تم؟"
شایان کی آواز پر معراج رکا اور اپنا سر جھکا لیا۔جو بدتمیزی اس نے شایان سے کی تھی وہ چاہے صرف ایک دیکھاوا تھا لیکن معراج آج بھی اسکے لیے شرمندہ تھا۔شایان مسکرا کر اسکے قریب آیا اور اپنا ہاتھ اسکے کندھے پر رکھا۔
"میرے سعد کا بیٹا کبھی بھی اپنا سر نہیں جھکاتا یاد رکھنا۔۔۔"
معراج نم آنکھوں سے مسکرایا اور شایان کے گلے سے لگ گیا۔
"سس۔۔۔سوری بڑے بابا۔۔۔۔"
شایان نے مسکرا کر اسکا سر چوما۔
"چلو اپنے روم میں جاؤ تمہاری بیوی ہر ایک سے ایسے ڈر رہی ہے جیسے ہم انسان نہیں بھوت ہوں۔۔"
معراج شایان کی بات پر ہلکا سا ہنسا اور اپنے کمرے میں آگیا وہ ایمان اپنے گھٹنوں پر سر رکھے خاموشی سے بیٹھی تھی۔
"اا۔۔۔ایمان۔۔۔۔"
معراج نے اسکے قریب بیٹھ کر اسے نرمی سے پکارا تو ایمان جلدی سے اپنے آنسو پونچھ کر مسکرا دی۔
"تت۔۔۔۔تم دکھی ہو کیا؟"
ایمان نے فوراً انکار میں سر ہلایا۔
"نہیں معراج میں اس شخص کو لے کر دکھی نہیں بلکہ شکر گزار ہوں کہ میری ماما کو انصاف ملا صرف تمہاری وجہ سے۔۔۔"
ایمان نے معراج کا ہاتھ پکڑا اور عقیدت سے چوما۔
"تم بہت اچھے ہو ملنگ اور میں دعا کروں گی کہ ہم دونوں ہمیشہ یوں ہی ساتھ رہیں۔۔۔۔"
"اا۔۔۔۔ان شاءاللہ۔۔۔"
معراج نے مسکراتے ہوئے اسکے آنسو نرمی سے پونچھے اور اسے اپنی گرفت میں لے کر محبت سے اسکے ماتھے پر اپنے ہونٹ رکھے تو ایمان سکون سے اپنی آنکھیں موند گئی۔آج وہ اپنے عشق کی منزل پر پہنچ چکی تھی۔
❤️❤️❤️❤️
سالار کو گھر واپس آتے ہوئے رات ہو چکی تھی۔گھر میں داخل ہو کر اس نے ہر جگہ اندھیرا دیکھا تو مایوسی سے اپنا سر جھکا کر گیا۔اس کا مطلب جنت نے اس کو نہیں سمجھا تھا اور شاید اسے چھوڑ کر جاچکی تھی۔
یہ خیال دماغ میں آتے ہی سالار غصے سے کمرے کی جانب بڑھا اور لائٹ آن کی۔اس کی توقع کے عین مطابق کمرہ بالکل خالی تھا اور واش روم میں بھی کوئی نہ تھا۔
"یہ تم نے اچھا نہیں کیا جنت شاید تم جانتی نہیں کہ تم اپنے سالار کو کبھی بھی نہیں چھوڑ سکتی۔۔۔۔"
اتنا کہہ کر سالار نے جلدی سے گاڑی کی چابیاں پکڑیں اور کمرے سے باہر آ گیا لیکن سامنے کا منظر دیکھ کر سالار کے قدم اپنے آپ رک گئے۔
اسکی جنت سفید فراک میں ملبوس اپنے بال کھلے چھوڑے مناسب سے میک اپ کے ساتھ سجی اسکے دل پر بجلیاں گرا رہی تھی۔سالار خواب کی سی کیفیت میں چلتا اسکے پاس آیا اور سونو کو اسکی باہوں سے لے کر فرش پر اتارا۔
"تم گئی نہیں؟تم تو چھوڑ کر جانا چاہتی تھی ناں مجھے۔۔۔۔"
سالار کی بات پر جنت نے اپنی نم سنہری آنکھیں اٹھا کر اسی دیکھا اور اپنے ہاتھ اپنے کانوں پر رکھ دیے۔
"سوری۔۔۔"
بس جنت کی اس ادا کر سالار کا غصہ جھاگ کی طرح بہہ گیا تھا لیکن پھر بھی وہ غصے سے اپنے سینے پر ہاتھ باندھے کھڑا رہا۔
"اور اس تبدیلی کی وجہ؟"
سالار کے سختی سے پوچھنے پر جنت نے سہم کر اپنی نظریں جھکا لیں۔
"مم ۔۔میں نے ٹی وی پر دیکھا کہ کیسے سب نے آپ کا ساتھ دیا اس وجہ سے کہ آپ نے جو کیا اچھا کیا۔۔۔ان برے لوگوں کو مار کر کچھ غلط نہیں کیا آپ نے۔۔۔بلکہ مظلوموں کو انصاف دلایا"
جنت کے سر جھکا کر اعتراف کرنے پر سالار کے ماتھے پر بل آ گئے۔
"یعنی اگر دنیا مجھے اچھا سمجھے تو ہی میں تمہاری نظر میں اچھا ہوں اور اگر دنیا برا سمجھے تو میں برا ہوں۔۔۔۔تم خود مجھ پر یقین نہیں کرتی کیا؟"
سالار نے پھر سے سختی سے کہا تو جنت پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
"ہو گئی نا غلطی اب سوری بول دیا ہے ناں پلیز معاف کر دیں وعدہ کرتی ہوں اب آپ پر پورا بھروسہ کروں گی۔۔۔"
جنت کو اس طرح سے روتا دیکھ سالار اسکے پاس آیا اور نرمی سے اسکے آنسو پونچھ دیے۔
"جنت یاد رکھنا جس رشتے میں ہم بندھے ہیں نا اس میں محبت سے زیادہ اہمیت بھروسے کی ہے جو ہم دونوں کو ایک دوسرے سے زیادہ ہونا چاہیے۔۔۔۔"
جنت نے سر جھکا کر ہاں میں سر ہلایا۔
"اوکے سوری بول تو رہی ہوں اب میں آپ بتائیں کیسے مانیں گے؟"
جنت کے سوال پر سالار شان سے مسکرا کر اسکے مزید قریب ہوا اور اپنے ہاتھ اسکی کمر پر رکھ دیے۔
"تم کیا کر سکتی ہو مجھے منانے کے لیے؟"
"کچھ بھی۔۔۔"
سالار کے سوال پر جنت نے بے چینی سے کہا۔سرخ بھرے ہوئے گال کپکپاتے سرخ لپ سٹک سے سجے ہونٹ سالار کو بے خود کر رہے تھے۔
"ٹھیک ہے پھر۔۔۔"
تبھی سالار نے اسے کمر سے تھام کر خود میں بھینچا، اسکا سر بالوں سے پکڑ کر اونچا کیا اور بہت شدت سے جنت کے نازک لبوں پر جھک کر اسکی سانسیں اپنی سانسوں سے الجھا لیں۔جنت نے پل بھر میں اپنی آنکھیں کھول دیں اور سالار کی پکڑ میں سٹپٹانے لگی لیکن سالار کی پکڑ میں بہت زیادہ مظبوطی تھی۔
جتنا جنت خود کو چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی اتنا ہی سالار کا ہر عمل شدت اختیار کرتا جا رہا تھا۔جان تو اسکی تب ہوا ہوئی جب اسنے اپنے نازک لبوں پر سالار کے دانت گڑتے محسوس کیے۔جنت کو پل بھر میں ہی لگنے لگا تھا کہ اسکی سانسیں رک جائیں گی۔
سالار نے اسکے ہونٹوں کو نرمی سے چھوڑ کر اسے اپنی باہوں میں اٹھا لیا اور اسے کمرے میں لا کر بیڈ پر لیٹا کر اس پر حاوی ہونے لگا۔
'سسس۔۔۔۔۔سالار۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔ابھی رخصتی نہیں۔۔۔"
"میری جان بتایا تو تھا کہ رخصتی ہو چکی ہے۔۔۔۔تمہارے بابا کو کہہ آیا تھا کہ میں اپنی بیوی کو واپس نہیں آنے دینے والا۔اب تو رخصتی کے بعد والا پروسیجر ہے۔۔۔"
اپنی گردن پر سالار کے ہونٹوں کا لمس محسوس کر کے جنت نے اسکے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر خود سے دور کرنا چاہا تو جواب میں سالار نے اسکے دونوں ہاتھوں اپنے ایک ہاتھ میں لے کر تکیے کے ساتھ لگا دیے۔
'نہیں بیبی گرل تم نے کچھ ذیادہ ہی میری چھوٹ کا فائدہ اٹھایا ہے اس لیے اب تمہیں مکمل طور پر خود سے باندھنے کا وقت آ چکا ہے اور یہی تمہاری سزا ہے۔'
سالار نے بہت ذیادہ چاہت سے کہتے ہوئے جنت کے کندھے سے شرٹ سرکا کر وہاں اپنے دہکتے لب رکھ دیے تو جنت کانپ کر رہ گئی۔
'سس۔۔۔۔سالار۔۔۔'
سالار نے اسے مزید کچھ کہنے اور مزاحمت کا موقع دیے بغیر پھر سے اسکی سانسوں پر اپنی حکومت کر لی ہر گزرتے لمحے کے ساتھ سالار کی منمانیوں اور شدتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔جنت کی نازک جان کب تک مزاحمت کرتی۔
تھوڑی دیر بعد ہی محبتوں کے اس موں زور طوفان کے آگے ہار مان کر جنت گھبراتے ہوئے سالار کی پناہوں میں چھپنے لگی۔اسکی اس معصومانا خود سپردگی پر سالار سر شار سا ہو کر اس پر اپنی محبت کی برسات کرنے لگا اور پھر وہ برسات ساری رات ہوتی رہی۔